![]() |
غرور انسان کو گرا دیتا ہے |
غرور، تکبر اور گھمنڈ کا انجام
غرور تکبر گمنڈ کا سر ہمیشہ سے نیچا ہوا ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے اور دور حاضر پہ غور فکر کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ خاص طور پر ہر مغرور شخص نے زوال پزیر ضرور ہونا ہے چاہے وہ مغروری دولت کی ہو یا شہرت کی، علم کی ہو یا طاقت کی، ذات برادری، قوم قبیلے کی ہو، حسن کی ہو یا جسمانی طاقت کی، کرسی کی ہو یا کسی سرکاری عہدے کی — زوال پزیر ضرور ہونا ہے۔
اخلاق اور تکبر کا فرق
دنیا کے ہر میدان میں جیت ہار ہوتی ھے لیکن اخلاق کے میدان میں کبھی ہار نہیں ھوتی اور تکبر کے میدان میں کبھی جیت نہیں ھوتی۔ اللہ ہمیں عاجزی و انکساری، یقین کامل کی دولت صحت و تندرستی والی زندگی عطا فرمائے۔ کبھی اپنی اصل میں سے باہر مت نکلیں کیونکہ قدرت ایک جھٹکے میں ککھ سے لکھ اور لکھ سے ککھ کر دیتی ہے
غرور اور انسانیت کی تذلیل
غرور، تکبر، گھمنڈ، انا پرستی اور اپنے آپ کو ساری نوع انسانی سے بہت افضل اور ذہین سمجھنا اور دوسروں کو کمی کمین بے وقوف کمزور سمجھنے والے کو رب تعالٰی نشان عبرت بنا کر چھوڑتا ھے۔ تاریخ کی کتب جس سے بھری پڑی ہیں۔ کسی گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں۔ قوم قبیلے صرف پہچان کے لیے بنائے گے ہیں۔ اگر یہ فرق تذلیل و توہین، ضرر و نقصان اور محرومی و تباہی کے نتائج دینا شروع کردیں تو یہ نفرت و عداوت کی لاکھوں شکلیں برآمد کرتی ہیں اور یوں انسانی سماج کو خیر، محبت، انصاف، احترام اور تحفظ سے محروم کرتی ہیں۔
تکبر کے کنویں
اکثر گھمنڈ اور تکبر میں کھودے گئے کنوؤں میں انسان خود گرتاہے۔ طاقت، حسن و جوانی، اختیار و مرتبے، دولت و شہرت اور خود ساختہ پارسائی سب جھوٹے اور وقتی سہارے ہیں۔ انسان کی انکساری اور عاجزی کو زوال نہیں۔ (جس کو "میں" کی بلا لگی پھر اس کو نہ دوا لگی نہ دعا لگی)۔
میں (انا) اور شیطان کی کہانی
جب حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ اللّٰه پاک نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: (انا خیر منکم) میں اس سے اعلٰی ہوں اسے تو نے مٹی سے بنایا ہے اور میں آگ سے پیدا ہوا ہوں۔ یہی کلمہء تکبر تھا جو اس کے مردود ہونے کا باعث بنا۔ مٹی میں عجز ہے، پیروں کے نیچے روندی جاتی ہے مگر صبر کرتی ہے۔ آگ میں تکبر ہے، دوست دشمن سب کو جلا دیتی ہے۔
تاریخی مثالیں
تاریخ ایسے لوگوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے مثلاً نمرود، شداد اور فرعون وغیرہ جو اپنی دولت اور طاقت کی وجہ سے اس قدر غرور میں مبتلا ہو گئے تھے کہ خود کو خدا کہلوانے لگے اور وہ لوگوں پر صرف اپنے غرور کی وجہ سے ظلم کے پہاڑ توڑتے تھے لیکن اللہ نے انہیں کچھ ہی مہلت کے بعد لوگوں کے لیے عبرت بنا دیا۔
اسلام میں غرور اور عاجزی
بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کے لیے مختص ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں عاجزی و انکساری کو پسند فرماتا ہے۔ وہ انسان میں غرور جیسے عیوب کو بالکل بھی پسند نہیں کرتا۔ لیکن کچھ لوگ ہر دور اور مقام پر ایسے پائے جاتے ہیں جو ذرا سی دولت، طاقت، عزت اور عہدہ پا کر ان میں غرور پیدا ہو جاتا ہے اور یوں وہ دوسروں کو کم تر اور اپنے سے حقیر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ عاجزی و انکساری جو کہ ایک بہترین اخلاقی خوبی ہے چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے لہجے، چہرے، چال ڈھال اور رہن سہن میں غرور نمایاں نظر آنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ اپنی طاقت، دولت، عزت اور منصب سے کام لیتے ہوئے کمزوروں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔
شاعر کا خوبصورت پیغام
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: کسی کی رہ سے خدا کی خاطر، اٹھا کے کانٹے، ہٹا کے پتھر پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا، کمال یہ ہے ہزار طاقت ہو، سو دلیلیں ہوں، پھر بھی لہجے میں عاجزی سے ادب کی لذت، دعا کی خوشبو بسا کے رکھنا، کمال یہ ہے۔
غرور کا نقصان اور احتساب نفس
غرور حسن کا ہو، عبادت کا ہو، علم کا ہو یا کسی بھی چیز کا — یہ انسان کو برباد کر دیتا ہے۔ یہ سوچنا چاہیے کہ یہ سب کچھ رب کی عطا ہے، وہ چھیننے کی طاقت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس کے دل میں رائی برابر بھی تکبر آیا، وہ جنت کا حقدار نہیں ہو گا۔ اسی لیے دوسروں پر تنقید سے بہتر عمل خود احتسابی ہے۔
دعا
اللہ کریم ہمیں ایک صاف ستھری، پاکیزہ اور باکردار زندگی نصیب فرمائے۔ اللہ کریم ہم تیری پناہ چاہتے ہیں ہر بُرے دن سے، ہر بُری رات سے، ہر بُری گھڑی سے، ہر بُرے لمحے سے۔ ہمیں ہمیشہ اپنے فضل کے ساۓ میں رکھ، تکبر سے دور عاجزی انکساری والی زندگی عطا فرما، اور ہم سے راضی ہوجا۔ ہمارے بیماروں کو صحت کاملہ عطا فرما، ہمارے مرحومین کی مغفرت فرما، اور روز محشر ہمارے حساب میں آسانی فرما۔ آمین۔
تحریر: ملک محمد زمان کھوہاروی