وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا |
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگ جاں میں اتر جائے گا |
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے ایک جھونکا ہے جو آئے گا گزر جائے گا |
وہ جب آئے گا تو پھر اس کی رفاقت کے لیے موسم گل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا |
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہوگی تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا |
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث جرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا |
پروین شاکر کی مشہور غزل: وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
تشریح
پہلا شعر
پروین شاکر نے اس غزل کے پہلے شعر میں اپنے محبوب کو خوشبو سے نسبت دی ہے اور خود کو پھول سے۔ جب مشکل وقت آتا ہے تو خوشبو کا کام ہے ہواؤں میں بکھر جانا، لیکن پھول کے مقدر میں بکھرنا لکھا ہے۔ وہ پتی پتی بن کر بکھر جاتا ہے اور اس کی پتیاں عوام کے قدموں میں آکر مسل دی جاتی ہیں۔
دوسرا شعر
کہتی ہیں کہ میں نے اپنے عشق کو ایک زخم سمجھا تھا۔ جدائی کا یہ زخم بھرنے کی بجائے رگِ جاں میں اتر گیا اور اب پورا وجود اس کرب اور درد میں مبتلا ہوگیا ہے۔
تیسرا شعر
محبوب کو ایک ہوا کا جھونکا کہا ہے۔ ہوا کے جھونکے کا کیا ہے؟ آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔
چوتھا شعر
اس کے آنے کی امید ظاہر کی گئی ہے۔ شاعرہ کہتی ہیں کہ جب بھی وہ آئے گا تو بہار بن کر آئے گا۔
پانچواں شعر
پروین شاکر نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ پیار دریا کی مانند ہے۔ اگر دریا جوبن پر ہے تو جلد ہی یہ دریا اتر بھی جائے گا۔
چھٹا شعر
آخر میں شاعرہ کہتی ہیں کہ اس عشق نے مجھے بدنام کیا ہے اور اس بدنامی کا لیبل بھی میرے اجداد کے نام لگے گا، کیونکہ یہاں کی تہذیب ہی ایسی ہے۔ اس پر گلہ کیسا۔