تاریخی اعتبار سے چج دوابہ دریا جہلم اور دریا چناب کا درمیانی علاقہ سرائے عالمگیر گجرات منڈی بہاولدین دنیا بھر میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی سرسبز اور زرخیز شمار ہونے والی زمین ماضی میں جنگجوؤں کے لیے میدان جنگ رہی ہے۔ یہاں کئی سورماء آئے اور اپنے عبرت کے نشان چھوڑ کر واپس چلے گئے لیکن اس سرزمین پر ایک ایسی جنگ بھی لڑی گئی جس کی نشانیاں آج بھی کھوہار سر زمین پر موجود ہیں
سکندر اعظم چج دوابہ کے مشہور بادشاہ راجہ پورس کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے ہندوستان کا رخ کیا جب وہ ٹیکسلا سے ہوتا ہوا دریائے جہلم کے مغربی کنارے پہنچا تو اگے دھرتی ماں کا شیر دل نڈر بادشاہ راجہب پورس لڑائی کے لیے دریا جہلم کے مشرقی کنارے پر جگہ جگہ اونچی جگی پر حفاظتی چوکیاں بناکر ہاتھیوں اور گھوڑوں کے لشکر کے ساتھ لڑائی کے لیے تیار کھڑا تھا یونانی سکندر دھرتی ماں کے دلیر پتر کو تیار دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا اب وہ جو اپنے ساتھ کشتیاں لایا تھا دریا میں ڈالنے کی جرآت کھو بیٹھا اور دریا جہلم کے مغربی کنارے پر ہی قیام کو ترجیح دی اسی سوچ وچار میں دریا کیسے پار کروب اور کس جگہ سے کروں تاریخ دان لکھتے ہیں جب وہ دریاجہلم کے مغربی کنارے قیام پذیر تھا اس وقت ساون کی بارشیں شروع ہوچکی تھی جس جگہ سکندر نے ڈیرے لگا رکھے تھے شمال جنوب دونوں طرف دو بڑے بڑے برساتی نالے پانی سے فل تھے سامنے مشرق کی طرف دریا بھی جوبن پہ تھا یہ دو برساتی نالے ایک نالہ گھان بو چک سکندر سرائے عالمگیر کے سامنے دریا میں گرتا ہے اور دوسرا نالہ پھمبر جو رسول گاؤں کے قریب دریا میں گرتا ہے وہاں پھنس گیا تھا اب اگر مشاہدہ کیا جائے یہ علاقہ کھوہار ہی بنتا ہے تاریخ دان لکھتے ہیں جب سکندر کے بے قابو ہاتھی بھاگ رہے تھے تو پیچھے مشرق کی طرف پہاڑیاں تھی اگر مونگ کو لڑائی کا میدان مان لیا جائے نہ تو اس کی مشرقی جانب پہاڑیاں ہیں اور نہ دونوں اطراف برساتی نالے پہاڑیاں کھوہار کی سر زمین پہ موجود ہیں اس لیے ثابت ہوا راجہ پورس کی دھرتی کھوہار تھی اگر یی لوگ راجہ پورس کے حامی ہوتے تو راجہ پورس کی یادگار تعمیر کرتے سکندر اعظم کی یادگار بناکر بیرونی بادشاہ کو داد دی ہے جو غلط ہے بے شک راجہ پورس ایک ہندو راجہ تھا لیکن دھرتی ماں کا بیٹا تو تھا اس کی یادگار بننا بنتی تھی باقی کھوہار کی سر زمین پہ ہندو آبادی کے بہت زیادہ آثار ملتے ہیں ہاتھوں کی ہڈیاں وغیرہ بھی کثرت سے ملتی ہیں میری قلم نگاروں سے اپیل ہے تاریخ کی غلطی درست کی جائے پاٹی کوئی کے اس شہر کھوہار کو لڑائی کا میدان لکھا جائے جہاں سکندر اعظم کی فوج کی قمر ٹوٹ گی اور راجہ پورس کو اس سے چھینی گی دھرتی واپس کرکے اپنے وطن واپس لوٹ گیا.
تاریخی کتابوں کے مطابق سکندر اعظم کی راجہ پورس کے ساتھ ہونے والی جنگ میں سنکدر کا کافی نقصان ہوا کیونکہ راجہ پورس اور اس کی فوج نے اُس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
کہتے ہیں فتح کے بعد سنکدر نے پورس سے پوچھا کہ "تم مجھ سے کس سلوک کی امید رکھتے ہو تو پورس نے تاریخی الفاظ کہے کہ ”جو ایک بادشاہ کو دوسرے بادشاہ سے کرنا چاہیے۔“
تاریخ دانوں کے مطابق یہی وجہ تھی کہ سکندر پوٹھوہار کے مطلب مجھے قتل کر دو یا پھانسی دے دو یہ الفاظ سن کر سکندر دلیر سپوت سے بڑا متاثر ہوا جو اس کے سامنے زخموں سے نڈھال پڑا تھا لیکن اس کے دل میں سکندر اور اس کی فوجوں کا کوئی خوف اور دہشت نہیں تھی۔
سکندر نے زخمی بادشاہ کے زخموں کا علاج اپنے یونانی حکیموں سے کرانا شروع کیا۔ سکندر نے مہاراجہ پورس سے ایسا سلوک کیا جیسے اس کا کوئی وفادار اس کے لیے لڑتے ہوئے زخمی ہوا ہو۔
یونان لوٹنے سے پہلے سکندر پورس کو اس کی سلطنت واپس کرگیا
شاید ایرانی بادشاہ دارا کی طرح میدان جنگ سے فرار ہونے کے بجائے پوٹھوہار کی دھرتی کے سپوت راجہ پورس نے جس طرح یونانی فوجیوں سے جنگ لڑی تھی، اس نے سکندر جیسے جنگجو کو بھی متاثر کیا تھا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم یونان کے سفارت خانے نے منڈی بہاؤ الدین سے دریائے جہلم کے شمالی کنارے کی طرف واقع جلالپور شریف ضلع جہلم کے مقام پر سکندر اعظم کی یادگار تعمیر کی ہے جس میں سکندر اعظم اور اس کی فوج کے زیرِ استعمال اشیاء کو رکھا گیا ہے جو دنیا بھر کے سیاحوں کی گہری دلچسپی، علمی تحقیق و تجربات کا
مرکز بنا ہوا ہے۔ ہمیں بھی راجہ پورس کی یادگار تعمیر کرکے تاریخ کی درستگی کرنی ہوگی اصل جنگ راجہ پورس نے جیتی تھی جس نے سکندر اعظم کی فوج کی قمر توڑ کے اسے واپس جانے پر مجبور کیا تھا ورنہ وہ تو دہلی کو فتح کرنے کا خواب لیکر ہندوستان آیا تھا
حیرت انگیز طور پر حکومتِ پاکستان نے پوٹھوہار کی دھرتی کے بہادر سپوت راجہ پورس کی یاد میں نہ کوئی یادگار تعمیر کی ہے اور نہ ہی کوئی مجسمہ نصب کیا ہے، شاید صرف اس لیے کہ وہ ہندو مذہب کا پیروکار تھا۔
لیکن کیا سکندر اعظم مسلمان تھا؟ بالکل نہیں، کیونکہ 323 قبل مسیح میں وفات پا گیا تھا اور اسلام اُس کے کئی سال بعد دُنیا میں آیا
اگر کوئی میری ان باتوں سے متفق نہیں ہے تو میرا چیلنج ہے میں اسے راجہ پورس کی لڑائی کا میدان کھوہار ثابت کرکے دوں گا
تحریر و تحقیق ملک محمد زمان کھوہاروی